Home

مختصر تعارف جامعه باقیات صالحات ویلور

بسم الله الرحمن الرحیم

نحمده ونصلى على رسوله الكريم اما بعد !

ہندوستان کی تاریخ میں 1857ءکا سال بڑی اہمیت کا حامل ہے ، مغلیہ دور کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو فرنگیوں نے قید کرکے رنگون کے (کالاپانی )قید خانے میں بند کرکے ادیتیں دے کر قتل کردیا اور اس کےساتھ ہی  ہندوستان میں مغلیہ دور کا خاتمہ ہوگیا ،

1857ء میں ہندوستانی عوام نے مذہب وملت کے بھید بھاؤ سے اوپر اٹھ کر اور اک چت ہوکر ہندوستان کی آزادی کے لئے جنگ کا اآغاز کردیا تھا اور یہی آزادی کی پہلی لڑائی ہے ،اس لڑائی میں علمائے کرام کا بڑا اہم کردار ہے ، اس لڑائی میں انگنت علمائے کرام نے جام شہادت نوش فرمایا یہ ایک درد بھری تاریخ ہے اس لڑائی کے آغاز اگر چہ فرنگیوں کو شکست ہوئی تھی مگر اپنے ہتھیار کے سہارے انہوں نے خود کوسنبھال لیا تھا ، جس کی وجہ سے اس لڑائی کا انجام الٹا نکلا،

مغلیہ دور ختم ہوچکاتھا ایسے میں دینی مدارس ، ایمان اور خدا کی ذات پر یقین دھندلانے لگا تھا ،اسلام کی دشمن طاقتیں جیسے عیسائیت ، ہندو توا  وغیرہ نےکئی ایک راستوں سے  مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانسنے کی بھرپور کوششوں میں لگ گئی تھیں،

مسلمانوں کی حکومتیں اپنی طاقت اور شہرت کھوچکی تھیں  ایسے میں ہندوستان کے شمال و جنوب میں علم دین کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہو کر رہ گئی تھی ،باصلاحیت علمائے کرام کی تعداد بتدریج کم ہوجانے کی وجہ سے دینی علم کا حصول ایک بڑا مسئلہ بن کر رہ گیاتھا، جس کی وجہ سے مسلمان دین کے معاملہ میں لاپرواہی کا شکار ہونے لگے ،

تمل ناڈو ، آندھرا اور کیرلا ان تین صوبوں کو ملا کر مدراس  کہا جاتا تھا ،مدراس کے علاقے میں علمائے کرام کی تعداد کم ہوتی جارہی تھی ،اس کے باوجود اکا دکا کہیں کہیں کوئی کسی کے پاس حصول علم دین کے لئے پہونچ جاتاتھا مگر سہولتیں میسر نہیں تھیں ، ایک کتاب مکمل پڑھنے یا کوئی فن مکمل سیکھنے کا موقعہ نہیں مل پاتا تھا ، بعض کتابیں ہی پڑھ پاتے تھے  ،مدراس کا علاقہ دین کے  حوالہ سے دن بدن تنزل کا شکار ہوتا جا رہا تھا ،

اللہ کابڑاکرم ہوا کہ  ایسے نازک حالات میں اسلام دشمن طاقتوں سےمسلمان اور اسلام کی حفاظت کے لئے مجدد جنوب ،داتائے علم ،معمار معاشرہ اعلی حضرت علامہ شمس العلماء شاہ عبدالوہاب صاحب قادری قدس سرہ نے اپنے آپ کو وقف کردیا ،

اللہ کا نام لےکر اپنے اسی خوف کو بنیاد بناکر 1274ھ مطابق 1857ء مدرسہء باقیات صالحات کا آغاز فرمایا ،ایک شجر بار آور سےپھل توڑ کر لوگوں میں بانٹنے والے اس خواب کی تعبیر کی تصویر ہی باقیات صالحات کو وجود بنا

1857ء  سے  1868 تک     12سال اپنے دولت کدے کے چبوترے سے ہی دینی علوم کی روشنی بانٹتے رہے 

اس کے بعد طلبہ کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے مسجد کے دالان میں مدرسہء باقیات منتقل ہوگیا یہاں پر 6 سال تک طلباء فیض پاتے رہے

اعلی حضرت ؒ اپنی پر خلوص محنتوں اور اپنے چند محسن احباب کے تعاون سے 25 سال تک بغیر کسی انتظامیہ مجلس کے مدرسہ کا نظام و انتظام سنبھالے رہے ،

طلباء کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوجانے کی وجہ سے اعلی حضرت نے اپنے خاص احباب اور محسنین حضرات کوبتاریخ  4.ربیع الاول 1299ھ مطابق 4.فروری 1882ءمشورے کے لئے جمع کیا اس مشورے میں فیصلہ کیاگیا کہ آنے والے زمانوں میں مدرسہ کے انتظامات مجلس شوری کے فیصلوں پر منحصر ہوا کریں گے

اسی کے مطابق بتاریخ 6 .جمادی الآخر 1299 ھ مطابق25اپریل 1882ءمجلس شوری کے لئے اراکین کا انتخاب ہوا، اس کے بعد 1292ھ  1875ءمیں مدرسہ اپنی مستقل عمارت میں منتقل ہوگیا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے الحمد للہ مدرسہ مسلسل اپنی رفتار کے ساتھ چلتا آرہاہے

 اعلی حضرت بانی باقیات شمس العلماء شاہ عبدالوہاب صاحب قادری قدس سرہ

ایک اجمالی تعارف

          آپ کے والد کانام نامی مولاناحافظ عبد القادر صاحب جو زمین آتور ضلع کرور کے تھے

           اور والدہ کانام فاطمہ جو جناب پٹیل محمد امین ویلوری کی دختر تھیں،

           آپ یکم جمادی الاولی ۷۴۲۱؁ھ مطابق ۷/ اکتوبر ۱۳۸۱؁ء بروز ہفتہ رائے ویلور ٹمل ناڈو میں پیدا ہوئے،

عنفوان شباب ہی میں دینی علم اور طبی علم ویلور میں حاصل کی،عیسائیوں سے مناظرہ کرنے کے غرض سے اور فن مناظرہ میں مہارت حاصل کرنے کے لئے مشہور زمانہ مناظر بانی ئ مدرسہئ صولتیہ مکہ مکرمہ علامہ رحمت اللہ صاحب کیرانوی ؒ کی خدمت میں حاضری کے لئے کیرانہ پہونچ کر ان سے فیض پاکر ویلور لوٹے،

شہر مدراس کے بحر العلوم حضرت مولانا غلام قادر صاحب ؒ سے فیض پاتے ہوئے والاجا بادکی مسجد کے چبوترے میں بیٹھ کر علم معرفت حاصل کیا،

آپ کی اہلیہ رضیہ امیر بیوی ۱۲/ صفر ۴۸۲۱؁ھ وفات پائیں

اسی سال اعلی حضرت ؒ حج وزیارت کے لئے مکہ پہونچے تھے وہاں آپ نے ایک سال آٹھ ماہ قیام فرمایا تھا، دوران قیام مکہ آپ نے حرم شریف میں مولاناسید حسین صاحب پشاوری ؒ اور مولانا مفتی شیخ احمد زینی دحلان ؒ سے فن حدیث حاصل کیا،

اسی زمانے میں آپ نے مولانارحمت اللہ صاحب کیرانوی ؒ اور مولاناامداد اللہ صا حب مہاجرمکی ؒ سے بیعت بھی کی تھی،

۰۸۲۱؁ھ میں آپ نے حضرت قطب ویلور ؒ سے خلافت پاکرشیخ طریقت کے منصب پر فائز ہوئے

اعلی حضرت ؒ کو قدرت نے جن کمالات سے نوازا تھا وہ تمام قابل ذکر ہیں مگر خاص طور پر آپ کی دور اندیشی،،خدا داد باطنی صلاحیت،خداترسی،تحقیقی مہارت اورلباس، رہن سہن اور رفتار و گفتارکے سلسلہ مین سنت رسول کی پیروی کا جیتا جاگتا نمونہ تھے

اعلی حضرت ؒاپنی پوری زندگی “الالیعبدون” والی آیت میں جو مقصد زندگی بتائی گئی ہے اسی مقصد کے لئے وقف کرکے بقضائے الہی۷۳۳۱؁ھ  ماہ ربیع الاول کے آخر میں تین ہفتہ کی مسلسل علالت کے بعدبروز ہفتہ  ۲۲/ ربیع الآخر ۷۳۳۱؁ھ مطابق ۵۲/ جنوری ۹۱۹۱؁ء ظہر اور عصر کے درمیان اس حال میں کہ….. آپ کی زبان مبارک پر ذکر جاری تھا اور چہرہ پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی..کہ “یاایتھا النفس المطمئنۃ ” کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان کو جانِ آفریں کے سپرد کردیا                                                                                                     

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم

چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست

انا للہ وانا الیہ راجعون

دوسرے دن بروز اتواربتاریخ۳۲/ ربیع الآخر ۷۳۳۱؁ھ مطابق ۶۲/ جنوری ۹۱۹۱؁ء بعد عصر ویلور قلعہ کے میدان کی جنازہ لے جایا گیا،آپ کے شیخ حضرت قطب ویلور حضرت شاہ عبداللطیف صاحب ؒ نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی،اس کے بعد مسجدجامعہ باقیات صالحات، ویلور کے احاطہ میں آسماں قد ہستی کو، اس علم کے سمندر کو سپرد ِ خاک کردیاگیا،   

Abdul Hameed Baqavi. mfb

Principal

پرنسپل پیغام

علم انسانی کی ترقی اور ثقافتی خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ اسلام مستند ریاستی خطوط اور وقار دیتا ہے خود نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں علم کو اسلامی تصورات میں اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ اسی کے ذریعے اسلامی شاگردوں کا پہلا گروہ اہلِ صفہ پیدا ہوا، صحابہ کرام نے تعلیم کی شرافت کو محفوظ رکھنے کی طرف بھرپور توجہ دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور دوسروں تک پہنچانے کے بعد ثبیہ اور فانوس کا علم اٹھا کر دنیا کو حقیقی تعلیم کا نور دکھاتے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے علم حاصل کرنے کے لیے ترکِ زندگی کی۔ انہوں نے علم کی خاطر قربانی دی اور برداشت کیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ خدا کی محبت اس کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے سے آئے گی۔ یہ تشویش بدل گئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام تعلیم کا افشاء اچھی طرح سے ہو جانا چاہیے۔ اس حقیقت سے اسلامی تعلیمی اداروں جیسے درس، عربی کالج وغیرہ کا آغاز ہوا۔ بقایاتھو سوالیہ، زندگی کی تسکین روحانی علم اور مقدس دنیا کی شان میں مہارت رکھنے والے "شمس العلماء عبد الوہاب" (پی ایس)، جس کا مقصد عظیم ترین معاشرے کو ڈھالنا اور مذہبی اصولوں کے اسکالرز کی پرورش کرنا ایک حکمت اسلامی علم اور ایک ذخیرہ کے طور پر روحانی آسمان بنی حضرۃ پر۔ بقایاتھو صالحہ کے وجود اور نمایاں ترقی کا سبب۔ اعلی حضرت بانی باقانت شمس العلماء شاہ عبدالوہاب صاحب قادری قدس سرہ ایک اجمالی تعارف آپ کے والد کانام نامی مولاناحافظ عبد القادر صاحب جو زمنو آتور ضلع کرور کے تھے اور والدہ کانام فاطمہ جو جناب پٹلو محمد امنح ویلوری کی دختر تھںح، آپ یکم جمادی الاولی ۷۴۲۱؁ھ مطابق ۷/ اکتوبر ۱۳۸۱؁ء بروز ہفتہ رائے ویلور ٹمل ناڈو مںم پدقا ہوئے، عنفوان شباب ہی مںم دییپ علم اور طبی علم ویلور مں حاصل کی،عسایئو ں سے مناظرہ کرنے کے غرض سے اور فن مناظرہ مںی مہارت حاصل کرنے کے لئے مشہور زمانہ مناظر بانی ئ مدرسہئ صولتہل مکہ مکرمہ علامہ رحمت اللہ صاحب کرہانوی ؒ کی خدمت مںر حاضری کے لئے کرہانہ پہونچ کر ان سے فضل پاکر ویلور لوٹے، شہر مدراس کے بحر العلوم حضرت مولانا غلام قادر صاحب ؒ سے فضں پاتے ہوئے والاجا بادکی مسجد کے چبوترے مں بٹھت کر علم معرفت حاصل کاض، آپ کی اہلہ رضہم امرص بووی ۱۲/ صفر ۴۸۲۱؁ھ وفات پائںی اسی سال اعلی حضرت ؒ حج وزیارت کے لئے مکہ پہونچے تھے وہاں آپ نے ایک سال آٹھ ماہ قاتم فرمایا تھا، دوران قایم مکہ آپ نے حرم شریف مںک مولاناسدے حسنع صاحب پشاوری ؒ اور مولانا مفتی شخا احمد زییو دحلان ؒ سے فن حدیث حاصل کات، اسی زمانے مں آپ نے مولانارحمت اللہ صاحب کرےانوی ؒ اور مولاناامداد اللہ صا حب مہاجرمکی ؒ سے بعتر بھی کی تھی، ۰۸۲۱؁ھ مںب آپ نے حضرت قطب ویلور ؒ سے خلافت پاکرشخا طریقت کے منصب پر فائز ہوئے اعلی حضرت ؒ کو قدرت نے جن کمالات سے نوازا تھا وہ تمام قابل ذکر ہںا مگر خاص طور پر آپ کی دور اندیی ،،خدا داد باطنی صلاحتو،خداترسی،تحقی ت مہارت اورلباس، رہن سہن اور رفتار و گفتارکے سلسلہ منا سنت رسول کی پرخوی کا جتاز جاگتا نمونہ تھے اعلی حضرت ؒاپنی پوری زندگی "الالیعبدون" والی آیت مںا جو مقصد زندگی بتائی گئی ہے اسی مقصد کے لئے وقف کرکے بقضائے الہی۷۳۳۱؁ھ ماہ ربعا الاول کے آخر مں تنل ہفتہ کی مسلسل علالت کے بعدبروز ہفتہ ۲۲/ ربع الآخر ۷۳۳۱؁ھ مطابق ۵۲/ جنوری ۹۱۹۱؁ء ظہر اور عصر کے درمابن اس حال مں کہ..... آپ کی زبان مبارک پر ذکر جاری تھا اور چہرہ پر مسکراہٹ پھیگی ہوئی تھی..کہ "یاایتھا النفس المطمئنۃ " کی دعوت پر لبکخ کہتے ہوئے اپنی جان کو جانِ آفریں کے سپرد کردیا نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لبِ اوست انا للہ وانا الہد راجعون دوسرے دن بروز اتواربتاریخ۳۲/ ربع الآخر ۷۳۳۱؁ھ مطابق ۶۲/ جنوری ۹۱۹۱؁ء بعد عصر ویلور قلعہ کے مد ان کی جنازہ لے جایا گاخ،آپ کے شخ۳ حضرت قطب ویلور حضرت شاہ عبداللطفد صاحب ؒ نے نماز جنازہ پڑھائی جس مںت ہزاروں عقدات مندوں نے شرکت کی،اس کے بعد مسجدجامعہ باقالت صالحات، ویلور کے احاطہ مںھ آسماں قد ہستی کو، اس علم کے سمندر کو سپرد ِ خاک کردیاگاش،

ہماری شاخیں۔

KALAS PEER
انوارباقیات۔ کالس پیٹھ ویلور
انوارباقیات۔ کالس پیٹھ ویلور
یہ ویلور میں واقع ہمارے برانچ انسٹی ٹیوٹ میں سے ایک ہے، جہاں تقریباً پچاس طلباء رہتے ہیں اور حفظمیں قرآن پڑھتے ہیں۔ ہم طلباء کے کھانے اور رہائش کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔
WhatsApp Image 2023-11-23 at 5.07.54 PM
سراج باقیات، راونکھ نگر آندھرا پردیش
سراج باقیات، راونکھ نگر آندھرا پردیش
یہ آندھرا پردیش میں واقع ہمارے برانچ انسٹی ٹیوٹ میں سے ایک ہے جہاں تقریباً اسّی طلبہ حفظ میں رہ کر قرآن پڑھتے ہیں۔ ہم طلباء کے کھانے اور رہائش کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔

سابق ناظرون

سابق صدور